logo

خانقاہ نقشبندیہ

حضرت پیر سید قطب عالم شاہ جیلانی عرف دادا میاں علیہ الرحمہ (و: 3رجب 1329ھ درقریہ لونی شریف بروز اتوارم:۱۳۸۲ھ مزار ِ پرانوارسوجا شریف) حضرت قدس سرہ ،بانی جامعہ صدیقیہ سوجا شریف کےوالد ماجد ہیں ،حضور صاحب قبہ شاہ عبدالرحیم ملاکاتیار ی علیہ الرحمہ کے خلیفہ ومجاز تھے ۔ , , ابو المشائخ ہمدرد دینِ اسلام ناصر قوم وملت حامی اہل سنت، والی تھر، حضرت پیر سید قطب عالم شاہ جیلانی عر ف دادا میاں علیہ الرحمہ اکابر اولیا اور اجل اصفیا میں سے شان عظیم اور رتبہ عالی کے مالک تھے،ایسے مستجاب الدعوات کہ زبان مبارک سے جو کچھ فرمادیتے وہ ہوکر رہتا، سیکڑوں بے اولاد آپ کی دعائوں سے صاحب اولاد ہوئے، کتنے مہلک بیماریوں میں مبتلا، اپنی زندگی سے مایوس آپ کی حکمت ودوا سے شفایاب ہوئے، بہت سے کھاری کنویں آپ کی دعا سے شیرۂ جان بنے، مادرزاد ولی ہونے کے باوجود اخفا کا یہ عالم تھا کہ زندگی میں کسی کو محسوس ہونے نہ دیا، وسعت نگاہ کا یہ عالم کہ مستقبل میں ہونے والے واقعات وحادثات سے بفضل خدا خدام کو باخبر کردیتے، اخلاق ایسے کہ پتھر دل انسان موم بن جاتے، خدمت خلق اور دعوت دین کے لیے نو نو ماہ کا سفر کیا کرتے، صرف تین ماہ گھر پر بسر فرماتے۔

والد ماجد:آپ کے والد ماجد حضرت علامہ پیر سید عبد الشکور جیلانی لونوی عالم شریعت، عارف طریقت، محبوب زماں، شیخ دوراں، عالی مرتبت بزرگ تھے جن کی طہارت وتقوی اور تہجد گزاری ضرب المثل تھی۔ تفصیلی حالات تذکرہ سادات میں درج ہیں آپ نے حضرت شاہ اعظم شاہ صدیق اللہ ملاکاتیاری سے اجازت وخلافت حاصل کی اوراپنے مخدومزادے حضرت شاہ عبدالرحیم عرف صاحب قبہ سے بھی توجہات لیں اورمکمل فیض پایا ، حضورصاحب قبہ کو والد بزرگوارشاہ اعظم کی موجودگی میں خلا فت و سجادگی حاصل ہو چکی تھی اور جو طالب آتااس پر توجہ فر مایا کرتے تھے، چنانچہ آپ ملا کاتیار شریف میں صاحب قبہ کے پاس کھڑے تھے اور کندھے مبارک پر نئی شال مبارک تھی تو حضرت قبے دھنی بادشاہ نے وضوفر ماتے ہوئے جان بوجھ کر اپنے پاؤں مبارک کا انگوٹھا خاک آلودہ کیا او ر فقراکو دیکھنے لگے گویاکہہ رہے ہیں کہ فقیر و! کو ئی کپڑالےکر انگوٹھا پونچھو فقرا ادھر اُدھر کپڑے کے لیے دوڑے،تب تک حضرت پیرسید عبد الشکور شاہ علیہ الرحمہ نے بلا تامل اپنی شال سے انگوٹھا پونچھ لیا، یہ منظر دورسےشاہ اعظم علیہ الرحمہ ملا حظہ فر ما رہے تھے ،خو ش ہو کر فر مایا بیٹے! ہم نے ان کو خوب نوازا ہے ،اب تم بھی جوکچھ ہو نواز دو ،مخدوم زادے نےوالد صاحب کا حکم پا کر اپنے جملہ فیوض و برکا ت سے آپ کونوازدیا ۔

آپ اپنےمخدوم زادہ کےبھی عا شق تھے جب آخری بار لو نی شریف کو واپسی ہو رہی تھی تو مرشد کریم صاحب قبہ کے قدموں پہ گر گئے قدم بو سی فر ما ئی اور بہت دیر تک قدموں سے چمٹے رہے گریہ و زاری جاری رکھی بالآخر حضرت مخدوم زادے نے اٹھا کر گلے لگایا اور فر مایا کہ پیر صاحب فکر نہ کریں ہم ہمیشہ تمھارے ساتھ ہیں ۔ ملاعبدالقادر بدایونی کا یہ شعر یہاں برمحل ہے : ؎ می روم سوئے وطن زیں درددل بے اختیار نالہ دارم کہ پنداری بغربت می روم ۔

والدہ ماجدہ: کی والدہ ماجدہ بڑی عابدہ ، زاہدہ، طیبہ، طاہرہ تھیں۔ اسم شریف سیدہ بی بی بصرہ بنت پیر سید محمد شاہ اول تھا۔ ۱۲۹۳ میں گائوں نگر تحصیل گُڑھا ضلع باڑمیر میں ولادت ہوئی۔ بیاض اکبری وبیاض یوسفی میں بھی والدہ کی ولادت نگر میں لکھی ہے۔

تعلیم:والد ماجد، ماموں جان، مولانا عبد اللطیف درس یاقوتی اور ولی محمد کورار کے علاوہ خاندان کے بزرگ اور اہل پردہ درس وتدریس کیا کرتے تھے۔ آپ نے اور تمام بھائیوں نے ان سے علم حاصل کیا۔ پھر تا زندگی علم دین کی خدمت کرتے رہے۔ راجستھان میں بے علمی کو ختم کرنے کے لیے بچوں کا چندہ فرماتے اور خود پڑھاتے، نیز لونی شریف میں متعین مدرس کے حوالے کرتے، عربی، فارسی اور سندھی زبان کی کتب تا زندگی مطالعہ میں رہیں۔

بیعت وخلافت:آپ نے ضروری تعلیم کے بعد دروازۂ مرشد پر حاضری دی اور قطب دوراں، سرکار ثانی حضرت شاہ عبد الرحیم عرف قبے دھنی بادشاہ مُلا کاتیاری علیہ الرحمہ (م: ۳ صفر ۱۳۵۹ھ) سے شرف بیعت حاصل کیا اور بہت مدت تک وہاں رہ کر سلوک کو مکمل کیا اور خلافت سے نوازے گئے اور چاروں سلاسل کی اجازت پائی۔

آپ کا تبلیغی سفر:آپ نے لق ودق صحراوسنگلاخ جبل وکوہ سار اس زمانے میں دینِ متین اور اشاعتِ اسلام کے لیئے عبور کیئے جب آج کے سے وسائل کا تصور تک نہ تھا۔

نیڑ:علاقہ تھرکا جنوبی حصہ نیّڑ کہلاتا ہے جس کے بعد کچھ کارن شروع ہوجاتا ہے، اس علاقہ میں مسلمانوں کے تقریباً ۳۰ گائوں ہیں۔ آپ اس علاقہ کے مرکزی گائوں میں لاکھانی پریوار کی دعوت لیتے، سادات کے گائوں تھلھ میں تمام سادات مرید تھے، یہاں دعوت ہوتی، یہاں کے کچھ سادات گائوں ارٹی آگئے تو سید امام علی شاہ وغیرہ کی دعوت ارٹی میں لیتے، نیڑ میں کمہاروں کے بہت سے گائوں ہیں، آپ ہینڈواڑہ میں حاجی نامی کمہار کی دعوت لے چکے ہیں، پائو ٹھا میں راہومہ برادری رہتی ہے، یہاں کی دعوت لیتے، نیز بھڑایوں میں باغ گل برادری قیام پذیر ہے، یہاں خلیفہ مصری کی دعوت ہوتی۔ بڑے پیر صاحب حضرت پیر روشن ضمیر سید حاجی محمود شاہ جیلانی نے نیڑ کے لیے دعا فرمائی۔ قحط سالیوں سے آزاد کیا، سیلاب سے کھیتیاں ہری بھری ہوئیں۔ نیڑکے بہت لوگ مریدہے، آپ کی دعوتیں اور دورے ایک دو گائوں پر محدود نہیں رہے بلکہ ہر کس وناکس دعوت کرنے لگا اور پوراعلاقہ آپکے دوروں سے فروزاں ہوگیا۔

مالانا وکھوکھا:باڑمیر شہر سے مشرق وجنوب کاحصہ سیر وہی تک مالانا کہلاتا، مگر اس وقت گڑھا تحصیل کو مالانا کہا جاتا ہے، اس علاقہ میں مالپورہ آپ کے دوروں کا مرکز تھا، آڈیل اور سڑیچا میں بھی دعوت ہوتی، گڑھا، جالیکھڑا اور دھوبلی میں دعوتیں ہوتیں، بخشے کا تلا اور سوکھر وشامل تھے۔ مہابار کی عظیم دعوت تھی، باڑمیر شہر تو آپ کے جد کریم سید احمد شاہ کا شہر ہے ، یہاں کئی روز رہتے، یہاں کے قریشی حضرات اور ہالیپوترا قوم مرید تھے، قصبہ سندری کی جانب کے کمہاروں کے گائوں بھی دورے میں شامل تھے۔

گائوں راہ ، کھوکھا، چھاجالا وغیرہ علاقے تو اس خاندان پاک کے خاص فیض یافتہ ہیں۔ پورا مہینہ رمضان المبارک کا کھوکھا میں گزارتے اور عید خود پڑھاتے پھر گھر تشریف لے جاتے،آپ جب تک رہتے جنگل میں منگل کا سماں رہتا۔

مارواڑ:جودھپور جانب کو خاص مارواڑ کہا جاتا ہے، آپ بالوترا، جودھپور ہرلائی، فلودی تک دورے فرماتے، باندھیوا، اونڈوا ورکانا سر کے علاقے آپ کے دورے میں شامل تھے، جودھپور کے اطراف کے قریہ جات میں بھی دورہ ہوا کرتا تھا۔ باسواڑا بھی اونٹوں سے سفر کرکے جاتے، اس علاقہ کے عبد الرئوف نامی بڑی عمر کے آج بھی موجود ہیں جو آپ کے مریدہیں وہ بیان کرتے ہیں: حضرت ہمارے یہاں اونٹوں پر آتے تھے، ان کے بعدحضرت پیر سید محبوب حسن شاہ تشریف لایا کرتے تھے۔

آڈیل میں آمد:گائوں آڈیل کے عارب بن حسین کے نکاح میں کھوکھا کے قاضی فقیر کی بھانجی مہراں بنت احمد تھیں جن کے بطن سے علی بخش، بچو، مبین اور محمد کے علاوہ تین بچیاں بھی ہوئیں۔ ایک کدنپورہ کے مولوی جمیل کی والدہ، دوسری علی واگھانی کی اہلیہ، یہ علی بخش بن عارب کثرت سے سوجا شریف آیا کرتے تھے، ۲۵ ذی الحجہ ۱۴۳۵ھ کو اس کے بھائی محمد بن عارب نے دعوت کی اور سنایا کہ پیر صاحب دادا میاں علیہ الرحمہ وپیر صاحب صالح محمد شاہ دیرا سر سے چھاجالا جاتے ہوئے آڈیل سے گزرے گھڑیال کی آواز سن کر والدہ نے کہا بچو! جاکر دیکھوگھڑیال کس نے بجائی؟ شاید لونی شریف کے بزرگ ہیں، میں بھی پیچھے پیچھے آتی ہوں، چنانچہ ہم نے دوڑ کر قافلہ کو رکوایا فرمایا: بچو! تم کیا کروگے، ہم نے کہا ہم دعوت کریں گے ہماری والدہ آپ کی مریدہ ہیں وہ بھی آرہی ہیں،اتنے میں والدہ آگئیں اور پیر صاحب کو گھرلائے، دو دن قیام رہا پھر دعوت کا سلسلہ شروع ہوا جو تاہنوز قائم ہے۔

کندھی:تھر، دھوروں (ٹیلے) والے علاقہ کو اور نیڑ سپاٹ مٹیا لے میدانوں کو کہا جاتا ہے، تحصیل چوہٹن پورا تھر علاقہ ہے، جب کہ جنوب میں جالور کی تحصیل سانچور کے سورا چند گائوں سے نیڑ شروع ہوتاہے، دونوں علاقوں کے مابین شرق وغرب میں طویل اور شمال وجنوب میں مختصرخط فاصل علاقہ کو کندھی کہا جاتا ہے۔ جس میں ویر سل کی بیری، ویڑیا، مڈاوااور رائپور آتے ہیں، کسی زمانے میں نیڑ دریا تھا اور یہ کندھی کنارہ تھا جس پر بندرگاہ بنے ہوئے تھے۔ رائپور میں ابھی تک اس کے آثار موجود ہیں، کہتے ہیں - راجا دلورا یہاں راج کیا کرتا تھا۔ جو سندھی اقوام یہاں سپاہ میں شامل ہوئیں ان کو آج بھی سپاہی کہا جاتا ہے، یہ لوگ ویڑیا، رائپور، کھیجڑیالی وغیرہ قریہ جات میں آباد ہیں۔

حضرت قدس سرہ کا دور اس کندھی میں بھی ہوا کرتا تھا، آپ ویرسل کی بیری اور ڈونگری ومڈاوا وغیرہ قریہ جات میں دعوت لیا کرتے تھے، یہاں آپ کے فیوض وبرکات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ ان حضرات میں بہت سے بے اولاد صاحب اولاد ہوئے، مسجد ومدرسہ سے علم عام ہوا، آج بھی یہاں آپ کا نام لیتے ہی لوگوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے، گویا آپ کی محبت آج بھی ان کے دلوں میں تازہ دم ہے۔

کچھ گجرات:لونی شریف میں واگھیر قوم کثیر ہے، جن میں بعض چمڑیے کہلاتے ہیں، یہ پیر صاحب دادا میاں علیہ الرحمہ کے مرید ہیں، لونی شریف کے پاس کمہاروں کا چھسرا گائوں ہے، یہ پورا گائوں آپ کے والد صاحب کے وقت سے مرید وعاشق ہے، جب آپ سفر کرتے تو ابتدا چھسرا سے فرماتے، یہاں کے حاجی محمد وحاجی حسن وغیرہما آپ کے عاشق ودیوانے ہیں۔ ان کی پھوپھی شہر بھچائو کے کمہاروں میں دی ہوئی ہیں۔ وہ لوگ بھی آپ سے منسلک ہیں، یہاں بھی دورہ ہوا کرتا تھا جو ابھی جاری ہے۔ تُونا گائوں میں ایک محلہ کمہاروں کا ہے، یہاں مسجد ومدرسہ آباد ہیں، یہاں کے بہت سے بچوں نے سوجا شریف سے قرآن مجید اور اردو پڑھی، کچھ نے قراء ت کی سند لی، بعض عالم فاضل بنے۔ مولانا محمد یوسف بن عبد الغنی صدیقی سوجا شریف سے فارغ ہوئے، حال میں اپنے محلہ میں امام اور مدرس ہیں۔ یہاں جو مدرسہ چلتا ہے وہ آپ کے نام پر فیض قطب عالم سے موسوم ہے۔

عبد السبحان آپ کے پورے سفر میں ساتھ ہوتے، کچھ گجرات، کاٹھیاواڑ، راجستھان، تھر اور مارواڑ علاقے کے جس جس گائوں میں جاتے، جس قدر لوگ نذرانۂ محبت دیتے جمع کرکے گنتے اور سناتے کہ قبلہ اس جماعت نے اتنا نذرانہ دیا، بزرگ دعا فرماتے، بڑے امانت دار اور سچے تھے، تا زندگی دلائل الخیرات شریف اور ذکروفکر کے پابند رہے۔ آپ کو بچے کی طرح رکھتے، کئی یاقوتیاں کھلائیں، موصوف آپ کا پائوں دباتے، کئی مزاحیہ کلام سے خوش کرتے، جان توڑ خدمات انجام دیتے ، سردی گرمی کا خیال نہ کرتے، حضرت مرشد کریم کے پائوں دباتے ہوئے نقل کرتے کہ یوں آپ کے والد صاحب کے پائوں اور جسم کو دبایا کرتا تھا، اپنی طاقت بتاتے کہ یہ آپ کے والد صاحب کی یاقوتیوں کی طاقت ہے، بزرگ نے دل روشن کردیا تھا، محبت سے سینہ لبریز ہوچکا تھا، صحبت ومحبت وخدمت نے رنگ چڑھادیا تھا، مزید وصیت فرمائی تھی کہ بیٹا عبد السبحان تم نے خدمت سے دل خوش کیا ہے، مگر وفادار تب سمجھوں کہ میری اولاد سے وفاداری کرو، خود مرحوم یہ بیان کرکے روپڑے۔چچا عبد السبحان کے ساتھ ساتھ آپ کے کئی خدام اور جانثار فقرا رہے مثلاً: خلیفہ رحمت اللہ سروپائی، حاجی محمد راجڑ دیراسر، طیب فقیر بھنورا والے، عبد الحکیم پینگیاوالے۔

علی بخش اور علی بن واگھے خاں، میاں جی جانی خاں بلوچ، میانداد فقیروتھاریہ خاں، حافظ محمد حسین، شاہ میر، مہندر، محمد اسحاق مینجر، فقیر محمد ہاشم ڈیمبہ والے وغیرہ۔ہر کہ خدمت کردمخدوم شد، خدمت کرکے یہ ذرّے ستارے بن گئے۔یہ قطب عالم کا فیض ہی ہے کہ پیر طریقت شہنشاہ تھر علامہ الحاج پیر سید غلام حسین شاہ جیلانی باپو مدظلہ العالی کا دینی وملی کارناموں کا خزانہ(جامعہ صدیقیہ وخانقاہ سوجا شریف کی شکل میں) دنیا ماتھے کی نگاہوں سے دیکھ رہی ہے۔ خداوند قدوس اپنے محبوب رحمۃ اللعالمین ﷺ کے صدقے فیضان اولیاے کرام کے طفیل صاحب تذکرہ کے فیضان سے ہم سب کو مالا مال فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔

+

تعداد فارغین

+

کامیابی کے سال

00 +

کل اساتذہ و ملازمین

00 +

کل تعداد طلبہ و طالبات