ولادت :ہندوستان میں صوبہ گجرات کا مغربی ، جزیرہ نما، ساحلی مختصر حصہ" کچھ بھوج" ہے جس کی،، مندرا ،، تحصیل کا ایک چھوٹا سا قصبہ لونی شریف ہےجو دریائے ہند سے متصل ہے۔ ۲۵ محرم الحرام ۱۳۷۹ھ میں آنحضور مد ظلہ العالی کی ولادت با سعادت اسی گاؤں میں ہوئی
گھٹی:شیخ المشائخ حضرت پیر سید حاجی محمود شاہ جیلانی بانی جامعہ اکبریہ (لونی شریف کچھ گجرات) علیہ الرحمہ نے تحنیک فرمائی اور خیرو برکت کے لئے گھٹی پلائی۔
والد بزرگوار:قطب تھر حضرت پیر سید قطب عالم شاہ جیلانی بن پیر سید عبد الشکورشاہ علیہ الرحمہ آنحضور کے والد بزرگوار ہیں جو تقویٰ و پرہیز گاری او رامت مسلمہ کی خیر خواہی میں اپنی مثال آپ تھے ۔ ١٦/ رمضان المبارک ۱۳۸۳ ھ میں دوران سفرعلاقہ تھار کے گاؤں بونہار میں بعد نماز مغرب وصال فرمایااور وصیت موجب یہاں سے ١٥ کلو میٹر دورسرحدی گاؤں سوجا شریف میں مزار پاک ہوا جہاں -١١جمادی الاخری ۱۴۰۶ ھ مطابق 21فروری 1986ء بروزجمعہ فرزند ارجمند نے جامعہ صدیقیہ قائم فرمایا ، مسجد صدیقی ، جامعہ صدیقیہ اور درگاہ پاک تینوں کا حسین اتصال اس شعر کا مصداق بن گیا : ؎ خوشا مسجد و مدرسہ خانقا ہے کہ در وے بود قیل وقال محمد وﷺ
مربی: بانی فیض اکبری حضرت الحاج پیرسید محمودشاہ جیلانی کو قطب تھر نے آخری دورہ تبلیغ پر روانہ ہوتے اپنا لخت جگر فرزند دلبندکو یہ کہکر سپرد کیا کہ یہ میری امانت آپ کے حوالے کرتا ہوں اس کی تعلیم و تربیت آپ کے ذمے ہے ، چنانچہ آپ نے تعلیم و تربیت کا حق ادا فرمایا اور پیر خانہ، ملا کا تیا ر پاک علامہ زماں، مخدوم دوراِں ، قدوۂ و اصلان حضرت شاہ محمد اسحاق عرف پاگارا باد شاہ علیہ الرحمہ کے حضور میں پہنچا کر فیضیاب کروایا۔ اپنے قائم کردہ دار العلوم فیض اکبری سے فراغت کے بعد مسند تدریس پر گامزن کیا، والد گرامی قطب تھر کے خادم خاص عبدالسبحان کے ساتھ والد کے مریدین میں دورہ کے لیے بھیجا، اپنے دوروں میں شامل فرما کر پروان چڑھایا، اپنے آخری دورے میں جملہ سالکین راہ طریقت آں حضور کی جانب رجوع کیا اور فرمایا: باقی ماندہ اب آپ لوگوں کو پیر سید حاجی غلام حسین شاہ جیلانی سے مکمل کرنے ہیں انشاء اللہ تعالی۔
بکرمی سن 25 26 کا قحط ضرب المثل تھا، امریکہ کی سرخ جَو مشکل سے میسر ہوا کرتی تھی، دارالعلوم فیض اکبری پر90 ہزار کا قرض ہو گیا تھا ،مربی معظم نے زیورات رہن رکھ کر مدرسہ کو قائم رکھا ،آخر خاندان لونی شریف کے شاہزادگان میں سے صرف آنحضور مدرسہ میں باقی رہے، اس وقت استاذ ِذی وقار علامہ الحاج الشاہ عبدالحق ڈیمبائی فاضل مظہر اسلام بریلی شریف نے عرض کیا :قبلہ! اب مدرسہ میں پیرا ن عظام میں سے صرف باپو سید غلام حسین باقی رہے ہیں، اجازت ہو تو ان کو اپنے ساتھ لے جا کر اپنے گاؤں ڈیمبا میں پڑھاؤں ورنہ خواہ مخواہ دارالعلوم پر قرض میں اضافہ ہوگا، جواب میں ارشاد فرمایا یہ دارالعلوم تا قیامت جاری رہے گا، آنحضور کو انگلی پکڑ کر استاذ کو سپرد کر کے فرمایا: مولاناصاحب !آپ صرف ان کو عالم بنا کر دے دیں یہ تنہا انشاءاللہ سب کو کافی ہوں گے، ایک غوث کا کلام حرف بحرف صحیح ہوا جسے آج کی دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
تعلیم:آنحضور نے پانچویں تک گاؤں لونی شریف کی اسکول سے عصری تعلیم لی اور الہ آباد بورڈ سے فاضل کاامتحان دیا اور اپنے گاؤں کی پیروں کی مسجد المعروف اکبر ی مسجد میں چل رہے مدرسہ میں خلیفہ ابراہیم واگیر وغیرہ سے ناظرہ مکمل کیا۔ 12 ربیع الاول 1386 ہجری میں فاضل مظہر اسلام شاگرد علامہ سردار احمد صاحب الحاج الشاہ عبدالحق محدث اعظم راجستھان لونی شریف تشریف لائے اور شہنشاہ ملاکاتیار قبلہ عارفاں حضرت شاہ محمد اسحاق عرف پاگارا بادشاہ علیہ الرحمہ کے ایماء پر پیر سید حاجی محمود شاہ جیلانی علیہ الرحمہ نے دارالعلوم فیض اکبری کی داغ بیل ڈالی، اس میں اولی عربی جماعت سے ثامنہ تک محدث ڈیمبائی سے مکمل تعلیم پائی اور 13 رمضان المبارک 1395 ھ میں فضیلت کی سند سے سرفراز ہوئے۔
تدریس: استاذ محترم کو مربی مکرم نے عالم فاضل بنانے کی ذمہ داری دے رکھی تھی، جدہ محترمہ سیدہ بصرہ بی بی ہمشیرہ صاحب روضہ نے بھی استاذ محترم کو کہہ رکھا تھاکہ ہڈیاں ہماری اور چمڑا آپ کا ،مگر عالم بنا کر دینا ہے۔ چنانچہ کھانے کے اوقات کے سوا24 گھنٹے اپنے استاد کی معیت میں گزارتے ،گھر پہ جدہ محترمہ راہ میں بانی فیض اکبری مدرسہ میں استاذ محترم کا پہرہ اور کڑی نگرانی نے چاروں جانب سے گھیرلیا تھا ، جس کی بنا پر تعلیم میں پختگی، طبیعت میں وقت کی قدر و نزاکت ا حسن طور پر رچ بس گئی۔دوران تعلیم ناظرہ کے طلبہ سپرد ہوئے پھرتحتانیہ کے طلبہ پڑھانے کے لیے دیے گئے فراغت کے بعد سند تدریس پر فائز ہوتے ہی فوقا نیہ کی تعلیم پر مامورکیے گئے، استاذ محترم سے معذرت کرنے پر فرمایا :ہم آپ کو دعا کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ہماری موجودگی میں کہنہ مشق استاذ ہو جاؤ، جناب آ نحضور نے اپنے استاذ کی حاضری میں ادارۂ اکبریہ کے تدریسی تبلیغی تنظیمی شعبوں کو سنبھالا،استاذ زادہ حضرت علامہ عبدالباقی علیہ الرحمہ سے دوستی بہت گہری تھی ،شب و روز ساتھ گزارا کرتے ،اسباق کے حل میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بنتے فارسی اشعار اور بیت بازی میں ساتھ رہتے حتی کہ استاد محترم کے وصال 24 رجب 1401 ھ کے بعد علامہ عبدالباقی کی صدارت کے زمانہ میں دوش بدوش کام کیا ،استاد زادہ کے چلے جانے کے بعد منصب صدارت کو سنبھالا اور احسن طور پر نظم و نسق برقرار رکھا ،صبح تہجد کے وقت گھر سے آتے اور رات کو ایک بجے سب کو سلا کر گھر واپس جاتے ،دوپہر کو چھٹی کے وقت گھر پہ کھانا اور مختصر قیلولہ کے بعد ظہرواپس جا کر دارالعلوم میں پڑھتے تہجد کے وقت سے سبق پڑھانا شروع کر دیتے اور مسلسل پڑھاتے رہتے صدر آفس گیٹ پر تھی بغیر اجازت طلبہ کیا کسی استاذکو ہمت نہ تھی کہ نیچے جائے جملہ اساتذہ آپ کے ڈر سے بالکل ناغہ نہ کرتے پوری گھنٹی کو طلبہ پر صرف کرتے بعض کاہل واقع ہوئے تو ان کے اسباق خود اپنے ذمہ کر کے طلبہ کو خوب پروان چڑھایا، اس دور کے آنحضور کے پڑھائے ہوئے طلبہ نحو و صرف کے قواعدچالیس پچاس سال گزر جانے کے باوجودآج بھی ان کو سب یاد ہیں اوررعب و د بدبہ اس قدر تھا کہ طلبہ تو کیا استاذ حضرات بھی بغیر اجازت کچھ بھی کرنے کی ہمت نہ کرتے۔
خدمت شریعت و طریقت: آنحضور مدظلہ العالی کی طبیعت میں بزرگوں کی صحبت کی برکت سے نیکی اور تقوی و پرہیزگاری رچی بسی ہوئی ہے ویسے طبعاً نیک واقع ہوئے ہیں ،بچپن میں لوگ آپ کو چلتے پھرتے دیکھ کر کہا کرتے تھے کہ یہ بڑے ہو کر بہت بڑے بزرگ ہوں گے،بچپن میں ہی لونی شریف کے بعض لوگ حضرت محمود الاولیاء سے عرض گزار ہوئے کہ ہمارے بچوں کو پیر سید باپو غلام حسین شاہ سے مرید کروانا ہے، وہ آپ کی اجازت کے بغیر مانتے نہیں ہیں، آپ ان کو حکم فرمائیں چنانچہ مربی مکرم کے حکم فرمانے پر سب سے پہلے قوم چمڑیہ واگھیرآپ کے مرید ہوئی، نیک طبیعت طلبہ کو آپ تہجد کا پابند بناتے ،عصر بعد طلبہ کو بجائے کھیل کے نماز کی ٹریننگ میں لگاتے ،خود نگرانی فرماتے سلف صالحین نامی ایک کمیٹی بنائی جس میں ہفتہ میں ایک مرتبہ استاذ کریم کو نصیحت کے لیے شامل کرتے ،یوں طلبہ میں نیکی کا بیج بویاکرتے جو دور بھاگتا اسے زجر و توبیخ سے نرم فرماتے ۔
دو رۂ تبلیغ : .بچپن سے راجستھان کے متعدد علاقوں کا میں شروع کیا، کبھی ایک ماہ توکبھی ڈیڑھ ماہ کا دورہ ہوتا جس میں شرکائے سفر کثیر تعداد میں پیدل و سوار ہوتے وہ زمانہ گاڑیوں کا نہ تھا لونی شریف سے بائی ٹرین یا بس سے تشریف لاتے ،لوگ اپنے اونٹ لے جاتے اور بس یا ٹرین سے اترتے ہی اونٹوں پر سفر کرواتے 10 ,12 ,15 اونٹ گھوڑے سفر میں ساتھ رہا کرتے تھے۔بیس پچیس کا قافلہ ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں منتقل ہوا کرتا تھا، جس میں خدا م یعنی حاضری کے خدمت گزار باورچی سامان (مڈی) سنبھا لنے والے آپ کی سواری کا اونٹ سنبھالنے والے علاوہ ازیں سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کا سلوک کا سبق پڑھنے والے سالکین دس دس پندرہ پندرہ منزلوں تک ساتھ چلتے روزانہ نماز عصر بعد فقرا عرض کرتے کہ حلقہ ذکر کی مہربانی ہو جائے اور یہ اجازت و عرضی اس حلقہ کے لیے لازمی قرار دیا ہوا تھا چنانچہ فقراء کے عرض پر روزانہ رات کی جہاں دعوت ہوتی مسجد میں باجماعت نماز اور اوابین کے بعد گھنٹہ بھر حلقہ شریف ہوتا جس میں کوئی صاحب نعت شریف یا غزل شریف مترنم انداز میں پڑھتا ،بقیہ حضرات اپنے اپنے دل کی طرف متوجہ ہو کر اسم جلالت کے قلبی ذکرکےساتھ اور مرشد کے دل سے طالب فیض ہو کر مراقب ہوتا ،پھر جس نے دوسرے اوقات میں جتنا ذکر قلبی زیادہ کیا ہوتا اس کا اثراس قدر ہوتاآ نحضور ان کے قلوب پر توجہ فرماتے ،بعض وقت بلند آواز سے اللہ اللہ اللہ جل جلالہ کی ضربیں لگاتے جس سے اہل حلقہ پر جذب طاری ہو جاتا اور بے اختیار چیخ و پکار اور آہ و فغاں شروع ہو جاتا بعض زمین سے بلند ہو کر فرش زمین پر گرتے آخر میں رقت انگیز دعا فرماتے، اپنی نگاہ صیقل سےزنگ آلودہ دلوں کو پاک صاف فرماتے، آپ کے حلقہ ذکر میں مردہ دل ذاکر القلب ہو جاتے ،مربی مکرم کے فقرا کو بھی سبق پڑھاتے جن کو آگے سبق دینا ہوتا عطا کرتے ،قلبی احوال اور کیفیات دریافت کرتے اس راہ کی مشکلات کا حل ارشاد فرماتے تہجد کے وقت سارے فقراء اور رفقا اٹھ جاتے پانی گرم کرتے سب لوگ وضو کر کے ذکر اور مراقبہ اور تہجد میں مشغول ہو جاتے آنحضور مدظلہ العالی علی الصبح گرم نیم گرم پانی سے نہاتے اور توجہ کرنے کے لیے بیٹھ جاتے حتی کہ فجر کی اذان ہوتی اس وقت مسجد میں جا کر نماز باجماعت ادا فرماتے پھر تلاوت کلام پاک دلائل الخیرات شریف اور اوراد و وظائف میں مشغول ہو جاتے یہاں تک کہ نو بجے فارغ ہوتے جن حضرات کو پانی وغیرہ دم کروانا ہوتا وہ خدام پیش کر دیتے تلاوت سے فارغ ہو کر دعا مانگتے اور دم کرتے اس اثنا میں کسی کی مجال نہ تھی کہ اپ کا دروازہ کھولتا
ایک مرتبہ مفتی اعظم کچھ علیہ الرحمہ سے پیر سید حاجی محبوب حسن شاہ نے عرض کیا ہماری یہ عرضی آپ لگا دو تو فرمایا ضلع کلیکٹر سے کہنا ہو تو کہہ دوں گا مگر پیر سید غلام حسین شاہ سے مجھ سے یہ نہیں کہا جائے گا ،نو بجے دروازہ کھلتا گاؤں کے لوگ انتظار میں ہوتے، دیدار عطا کرتے ،مجلس علمی اور گفتگو روحانی شروع ہوتی، لوگوں کی عرضیاں سنتے، ان کا حل نکالتے، دعاو دم اور تعویذو دوا سے نوازتے ،پھر دوپہر کی دعوت کے لیے دوسرے گاؤں کی طرف روانگی کی تیاری ہوتی اونٹوں پر پالان کسے جاتے ،مولود خواں، سندھی میلاد پڑھتے ہوئے آپ کو دور تک مشایعت کرتے ہوئے لےجاتے اور دعا لے کر لوٹتے، سامان اٹھانے والا اونٹ جسے مڈی کہتے ہیں وہ رات والی دعوت کے گاؤں جاتا آپ دوپہر والی دعوت کے لیے مختصر سامان سفر کے ساتھ تشریف لے جاتے جبکہ باورچی کو دعوت کرنے والا رات کوہی لے کر منزل پہ پہنچ گیا ہوتا، وہاں لوگ انتظار میں کوسوں دور سامنے آتے مولود پڑھتے ہوئے منزل پہ لاتے ،دور دور تک غالیچے اور سندھی ازرقیں اور منقش گدڑیاں بچھائی جاتیں،چارپائی پر عمدہ نقش و نگار والی گدڑی بچھاتے جس پر تشریف رکھتے سب لوگ قدم بوسی کرتے ،خیر و عافیت پوچھی جاتی، گاؤں اگر نیا ہوتا تو تفصیل پوچھتے کہ کتنے گھر ہیں کون سی قومیں ہیں؟ کتنے قرآن خواندہ ہیں؟ کتنی مسجدیں ہیں؟ کون کون بزرگ آ چکے ہیں؟ مسجد میں نمازی کتنے ہیں؟ جمعہ پڑھنے کتنے آتے ہیں، مدرسہ چالو ہے یا نہیں، کون مولانا پڑھاتا ہے، کتنے بچے آتے ہیں ،کتنے بچے بچیاں قرآن مجید پڑھ رہے ہیں؟آگے دارالعلوم میں بھیجا ہے یا نہیں ،بد عقیدگی کا ضرور سراغ نکالتے کہ کوئی تم میں بد عقیدہ تو نہیں، اگر کہیں خلل ہوتا فورا ًوہاں اہل قریہ کو اس کی بد عقیدگی کا خطرہ محسوس کراتے اور دفاع کا راستہ بتاتے ،مدرسہ قائم کر کے تنخواہ اسی مجلس میں وصول کر کے مدرس بھیج دیتے، کہیں سنتے کہ فلاں بچہ بے خبری میں بد عقیدہ لوگوں کے یہاں پڑھ رہا ہے تو منگوا کر اہل سنت کے مدرسہ میں پہنچاتے ،لونی شریف تک ممکن ہوتا تو وہاں کے لیے تیار کرتے، دوپہر کے کھانے کے بعد لازماً قیلولہ فرماتے پھر ظہر نماز ادا فرما کر رات والی دعوت کے لیے دوسرے گاؤں کی تیاری فرماتے ،لوگ اسی عقیدت و محبت کے ساتھ دور تک مشایعت کرتے اور اونٹوں کے ساتھ دوڑتے ہوئے وداعی مقام تک جاتے، مولود خواں حضرات مولود پاک پڑھتے ہوئے ساتھ چلتے ،آگے جس گاؤں میں دعوت ہوتی وہ لوگ اسی طرح استقبال کرتے ،نماز مغرب بعد حلقہ شریف ہوتا ،کھانے اور عشاء سے فارغ ہو کر محفل ،مولود پاک کی یاد ینی گفتگو ہوتی، اپنے ساتھ ایک دو عالم کو ضرور نصیحت وصیت اور ہدایت کے لیے ساتھ رکھتے، جن پر ذمہ داری ہوتی کہ وہ ملاقات کے لیے آنے والوں کو دنیوی گفتگو سے بچاتے ہوئے دینی گفتگو کریں یہ دورہ تبلیغ کی کیفیت جو بیان ہوئی اس ابتدائی دورے کی ہے۔
تعداد فارغین
کامیابی کے سال
کل اساتذہ و ملازمین
کل تعداد طلبہ و طالبات