میں مسلسل تین سال سے دیکھ رہا ہوں کہ اس صحرا میں حضرت پیرسید قطب عا لم شاہ عر ف دا دا میاں علیہ الرحمہ کے مزار پر انوار پر دور دراز سے عشا ق کشاں کشاں پروا نہ وا ر چلے آتے ہیں ، یہ منظر دیکھ کر یہ شعر یا د آتا ہے -
صبا نے دی میرے و حشی کی قبر پر جا روب پئے طواف بگو لےگو ہزار با ر آئے کتابوں میں اسلاف کے متعلق جو پڑھا، یہاں آکر دیکھا ،ایسا محسوس ہو تا ہے کہ ہم کئی صدیاں پہلے عہد زریں میں پہنچ گئے ہیں ۔ طلبہ و مدرسین کو تواضع کا پیکر اور نہا یت منکسر المزاج پا یا ۔بحمد ہ تعا لی سو جا شریف کی یہ تر بیت گا ہ علم سینہ ، علم سفینہ اور دا ر العمل تینوں کا مجمو عہ ہے کسی نے اس کی مدح سرا ئی کرتے ہو ئے کہا ہے -
زہے مسجدومدرسہ وخانقاہے کہ در وے بود قیل وقال محمد ﷺ سلسلہ عالیہ نقش بندیہ سےمیرا روحا نی را بطہ ہو نے کی وجہ سے ایک خاص لذت سے لطف اندوز ہوا ۔مدارس کے تعلق سے میرا مزاج یہ تھا کہ مدا رس کو معا شرہ سے الگ تھلگ قا ئم کیا جا ئے اور تصوف کی تعلیم و تر بیت کا بھی ضرور خیال کیا جا ئے ۔ مجھے اپنے اس مزاج کا امتزاج سو جا شریف میں نظر آیا ،بے پنا ہ مسرّ ت ہو ئی کیو نکہ طلبہ و مد رسین کے اخلا ق و آدا ب میں تر بیت کا پورا پورا اثر نظر آیا۔
۱۹شعبا ن ۱۴۳۳ ھ کی حا ضری میں لکھا:ایک سا ل کے وقفہ میں پو رے دا ر العلوم کا نقشہ ہی کچھ اور ہو گیا اس صحرا و بیا با ن میں علم و عرفا ن کا یہ چمنستان بلاشبہ حضرت پیر طریقت علا مہ الحا ج الشاہ سید غلام حسین صاحب قبلہ کے فیضان عشق و اخلا ص اور خصوصی تر بیت کا جلوہ ہے ۔
تعداد فارغین
کامیابی کے سال
کل اساتذہ و ملازمین
کل تعداد طلبہ و طالبات