logo

تعارف جامعہ صدیقیہ سوجا شریف

قیام

ملک ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے مغربی ضلع باڑمیرکی تحصیل سیڑوا کاایک چھوٹاساگاؤں ،،سوجا شریف ،،جوگورمنٹ رکارڈمیں ،،سوجوں کا نیوان ،،نام سے درج ہے یہاں لوگوں کی بود وباش آج سے ایک سو ترپن سال قبل 1870ء(بکرمی سنہ 1927)میں شروع ہوئی ،اس وقت درس برادری کے لوگوں نے مسجد و مدرسہ کی بنا رکھی اور ہمیشہ آباد رکھتے آئے،ان لوگوں کا روحا نی رشتہ ملتان شریف کی عظیم خانقاہ حضرت غوث بہا ؤالدین زکریا ملتانی علیہ الرحمہ سے تھا ، جس کی بدولت یہ لوگ علم شریعت و طریقت دونوں کے جامع اور تمام سلاسل کے بزرگوں سے محبت رکھنے اور ان سے اکتساب فیض کرنے والے رہے ،شیخ طریقت مخدوم المشائخ حضرت مخدوم محمد عارف شاہ قریشی اسدی ہا شمی نے اس وقت غیر مقلدیت کی اٹھتی ہو ئی آگ کو دیکھ کر ان لوگوںکو لو نی شریف کے عظیم بزرگ غوث زماں، قطب الاقطاب حضرت علا مہ الحاج پیر سید علی اکبر شاہ جیلا نی علیہ الرحمہ کی طرف رجوع کیا ، علم شریعت کےلیے استاذالاساتذہ جامع العلم والعرفان حضرت علامہ مولانامیاں حامداللہ بہا شریف والے علیہ الرحمہ کی جانب متوجہ کیا ،چنانچہ اس گاؤں کے باشندے خانقاہ ملتان پاک کے ساتھ ساتھ خانقاہ لونی شریف سے اورلونی شریف کے سادات کے مرکزعقیدت ملاکاتیار شریف سے بھی بہت فیضیاب ہوئے ۔

حاجی صالح محمد،حاجی مبین ،حافظ محمد،ولی محمداول عرف نالےچنگاں،مومن خان، فقیراحمد،فقیرعبداللہ ،خلیفہ محمد،فیض محمد،حاجی سنہیاں اور میانجی شیخ محمد وغیرہ یہاں سے فیض یافتہ تھے،علم شریعت کے بغیر فقیری ناپائیدار ہوتی ہے ،مخدوف محمدعارف شاہ سہروردی علیہ الرحمہ نے میاں صاحب علیہ الرحمہ کی طرف توجہ دلائی جس کی وجہ سے مولانا عبدالحکیم ،حافظ بچل،حافظ قائم ،میانجی اسماعیل صابو فقیر ،احمد فقیر ،نالے چنگاں،کامل ، حافظ محمد ،حافظ حبیب ،علی محمدوغیرہ بہا شریف وغیرہ میں پڑھے اور اپنے گاؤں میں مدرسہ قائم رکھا ،اکناف واطراف کے اکثر طلبہ اپنی علمی تشنگی کوبجھانے کےلیےسوجا شریف کا رخ کیا کرتےتھے،چنانچہ نیّڑ اور تَھر کے بہت سے شاگرد وں نےحافظ عبدالعلیم اورحافظ محمد خاں سوجائی سے تعلیم پائی ۔لونی شریف کےبزرگ ہرسال جب اس علاقہ میں دورہ فرماتے تویہاں کی مسجد میں ضرور حلقہ ذکر کراتے-

یہ سلسلہ حلقہ ذکر کاحضرت پیرسیدحاجی علی اکبرشاہ جیلانی لونوی علیہ الرحمہ سے لے کرحضرت بانی جامعہ صدیقیہ علامہ الحاج پیرسید غلام حسین شاہ جیلانی مد ظلہ العالی تک مسلسل جاری وساری رہا اورہے سوجا شریف کے باشندے یہ امتیاز بھی رکھتے ہیں کہ یہ لوگ تمام سلاسل کے بزرگوں کی خوب خوب خدمت اور تعظیم بجالاتے ہیں ،شایدان خصائل اور محامدکی بنا پر قطب تھرحضرت سیدنا مرشدنا پیرسید قطب عالم شاہ جیلانی علیہ الرحمہ نے گاؤں بونہارمیں وصال فرمانےکے باوجود دائمی استراحت کے لیے اس مبارک بستی سوجا شریف کو پسندفرمایا اور وصیت موجب بونہارسے سوجا شریف لاکر مزارپاک بنایاگیا اوریہ واقعہ وصال، اس گاؤں کے آباد ہونے کے 92سال بعد 1963ءمیں پیش آیااورآج کی ان خدمات دینیہ کاپیش خیمہ بنا ،اورمخدوم محمد عارف شاہ قریشی علیہ الرحمہ کی اس بشارت کی تعبیرثابت ہوا جوگاؤں کے آباد ہونے کے چند سال بعد یہاں کے قبرستان کی بنیادرکھتے ہوئے مخدوم صاحب نے اہل قریہ کوعظیم بشارت دیتےہوئے فرمایاتھاکہ یہ سوجا شریف کاقبرستان جنت کاٹکڑا ہے اور یہاں چہاریار کی چونکی ہے ،یعنی جو شخص اس جگہ سے تعلق محبت استوار کریگا ، اس کے ایمان کی حفاظت چاریار کے ذمہ ہوگی ،چنانچہ1963ء میں حضرت دادامیاں علیہ الرحمہ کی یہاں درگاہ بنی اس کے چھ سال بعد 1969ء سے آپ کے فرزند حضرت علامہ الحاج پیرسید غلام حسین شاہ جیلانی بانی جامعہ صدیقیہ نے 9 سال کی عمر میں اس علاقہ کادورہ شروع کیا اوربانی جامعہ صدیقیہ نے اپنےوالد ماجدکے عرس شریف کا ذمہ، تھر کے دورے کی ابتدا میں ہی۱۳۹۰ھ میں اپنے سر لے لیاتھا،جب کہ اس سےقبل اہل قریہ عرس کیا کرتے تھے،۱۳۹۰ ھ سے ۱۴۰۶ ھ تک مکمل ۱۶ سال تک آپ اپنے والدماجدحضرت پیر سید قطب عالم شاہ جیلانی عرف دادامیاں علیہ الرحمہ کاصرف عرس ہی کرتے رہے -

جب جب لونی شریف سے راجستھان کی طرف دورہ کے لیے آنا مقصود ہوتا توعلاقہ کے معززحضرات کے نام عرس جیلانی کی دعوت بھیج دیتے ، مقررہ تاریخ پر عوام و خواص آپ کے والد ماجد حضرت پیرسید قطب عالم شاہ کے مزارپر سوجا شریف میں جمع ہو جاتے،عرس کی نیاز پکتی اور رات بھر سندھی مولود شریف پڑھےجاتے، فجر کے بعدچادر پوشی ہوتی پھر گھنٹہ بھرآپ کابیان ہوتا ،اس ۱۶ سال کی مدت میں آپ جب جب عرس کرتے تودل میں یہاں مدرسہ کو دارالعلوم کی شکل دینےکاخیال انگڑائیاں لیتا ،بلکہ اپنےبزرگوں کی ان تمناؤں اور بشارتوں کی بنا پر جوانھوں نے پہلے ظاہر کردی تھیں ،یقین کامل تھا کہ ایک دن ضرور ایک عظیم گلستان محمدی سوجا شریف میں لہلہائے گا، بلکہ حضرت بانی جامعہ بعض اوقات عقیدت مندوں کے سامنے آئندہ وجود میں آنے والی اس بہار کا اظہار بھی فرماتے۔ چناں چہ آپ نے جب دیکھاکہ یہاں کے علما، معقول انتظام نہ ہونے کی بنا پردیگر علاقوں میں خدمت دے رہے ہیں اورانھیں اپنے علاقہ کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اگر کسی کوہے تووہ اپنے میں ہمت نہیں پاتاتھاکہ خشک علاقہ اور لق ودق صحرا میں بیٹھ کر دین کادرس دے سکے ۔ جب کہ اس کے برعکس بد عقیدہ لوگ اپنے کام میں مستعدی دکھارہے تھے اِدھر اہل سنت میں جموداس قدر کہ ان کے علمابھی باہر اورعوام الناس بھی گجرات میں مزدوری کرتے نظر آرہے تھے،بعض بھولے بھالے یہاں کے مسلمان، بدعقیدہ لوگوں سے اپنے بچے پڑھانے لگ گئے اورجو لوگ گجرات نہیں گئے بلکہ علاقہ میں رہے ہوئے تھے انھیں بدعقیدہ لوگ روپے پیسے دیتے اور ان کے بچے لے جاکر پڑھاتے ،یوں اہل سنت کا بہت بڑا نقصان ہورہاتھااور دوررہ کر صرف بذریعہ دور ہ تبلیغ کےاس کی تلافی ناممکن تھی اور یہاں کے بچے لونی شریف لے جاکر پڑھانے سے بھی سدباب کرنا تسلی بخش نہ تھا کیوں کہ اس صورت میں صرف وہی بچےبچ سکتے تھے جو عالم بنیں، ان کے رشتے داروں کو بچانا بڑا مشکل تھا، کیوں کہ جو عالم ہوتا تھا وہ بجائے اپنے رشتہ داروں کی فکر کرنے کے دوسرے علاقوں میں سیٹ ہو رہاتھا،یہاں علاقے میں سناٹا چھایاہوا تھا ۔چند ایک مدرسے اہل سنت کے چل رہے تھے ،مگر خاطر خواہ فائدہ کےلیے ضرورت تھی کہ راجستھان میں ایک ایساعظیم ادارہ قائم کیا جائے جس کے ذریعے پورے علاقہ میں اہل سنت کا کام مکمل اورمنظم طور سے ہوسکے -

بڑے پیر صاحب سیدی محمود شاہ قبلہ کی دلی تمناتھی کہ سوجاشریف میں ایک مدرسہ کھولا جائے ،اور پیر ومرشد حضرت شاہ محمد اسحاق عرف پاگارا بادشاہ کی بھی آرزویہی تھی، بلکہ انھوں نے کسی صاحب سے فرمایا: میں سوجا شریف میں ایک عظیم الشان ادارہ دیکھ رہاہوں " یہ اسباب وعلل تھے، جنھوں نے حضرت بانی جامعہ مدظلہ العالی کو اس بات پر آمادہ کیا کہ والد صاحب کے مزار شریف کے پاس ایک دارالعلوم قائم کیا جائے، چناں چہ آپ نےیہاں پر 11/جمادی الاخری ۱۴۰۶ھ مطابق ۲۱/فروری ۱۹۸۶ء کوجمعہ کے دن (بنام جامعہ صدیقیہ ) دارالعلوم قائم کیاجس کی خدمات آج ہمارے سامنے روشن و عیاں ہیں۔

+

تعداد فارغین

+

کامیابی کے سال

00 +

کل اساتذہ و ملازمین

00 +

کل تعداد طلبہ و طالبات